Wednesday, March 2, 2016

مشترکہ خاندانی نظام : نقصانات وحل

مشترکہ خاندانی نظام : نقصانات وحل
=================

تحریر: مقبول احمد سلفی

ہمارے سماج میں جوائنٹ فیملی سسٹم (مشترکہ خاندانی نظام) کا رواج ہے ۔ اس سسٹم کےسبب مسلم سماج وسوسائٹی میں ہزاروں مسائل اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں جن کا یہاں احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ان میں سے چند اہم مسائل اور ان کا تدارک پیش کیاجاتاہے۔
(1) ساس و سسر کی خدمت کا مسئلہ
(2) ساس وبہو کے تنازعات
(3) دیور و بھابھی کا رنگین فسانہ
(4) غیرمحرم سے بے پردگی
(5)فیملی ممبرس اور رشتہ داروں کے درمیان ناچاقی
(6) مالی نظام کی گربڑی
(7)والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات(نتیجہ میں اولاد کی نافرمانی ملتی ہے)
(8) اولاد کی ترقی میں رکاوٹ
(9) صالح معاشرہ کی تشکیل  میں رخنہ
(10) سماج پہ برے اثرات(طلاق،غیبت،بے پردگی،خیانت،تنازع،استہزاء،عدم تعاون وغیرہ) کا سبب رئیسی

ان جیسے ہزاروں مسائل نے مسلمانوں کے عائلی نظام کو نہ صرف درہم برہم کررکھاہےبلکہ صالح معاشرے کی بساط ہی الٹ دی ہے ۔  میرے خیال سےجوائنٹ سسٹم  کی وجہ برصغیرکا ہندوانہ ماحول ہے جس کے عائلی قانون میں مشترکہ خاندانی نظام پایا جاتا ہے۔
اسلام میں اس سسٹم کی نظیر نہیں ملتی ، اس لئے اسلامی روسے خاندانی اشتراکی سسٹم نہ چلانے میں ہی عائلی مسائل کا حل ، خاندان کے ہرفرد کی بھلائی اور ان سب کی ترقی کا رازمضمر ہے ۔
قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل ہمارے جوائنٹ فیملی سسٹم کے خلاف ہیں ۔ چند دلائل ملاحظہ ہوں۔
(1) پردے سے متعلق سارے نصوص اس پہ دلالت کرتے ہیں کہ ہمارا گھریلو نظام الگ الگ ہوتاکہ جہاں خواتین کی عفت وعصمت محفوظ رہے وہیں گھرمیں اخوت سے لیکر عدل وانصاف تک کی میزان قائم رہے۔
(2) اللہ کا فرمان ہے : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ (الاحزاب : 33)
ترجمہ : اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
اس آیت میں عورت کو اپنے گھر یعنی شوہر کے گھر کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیاہے ۔
(3) نبی ﷺ کا فرمان ہے : إياكم والدخولَ على النساءِ . فقال رجلٌ من الأنصارِ : يا رسولَ اللهِ ! أفرأيتَ الحموَ ؟ قال : الحموُ الموتُ(صحيح مسلم:2172)
ترجمہ : اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ حمو(دیور) کے بارے میں آپ ﷺکا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ حمو(دیور) تو موت ہے۔
یہ حدیث بتلاتی ہے ایسا عائلی نظام صحیح نہیں ہے جس میں دیور و بھابھی کا اختلاط ہوکیونکہ دیور عائلی نظام کے لئے موت ہے۔
(4) نبی ﷺ کی متعدد ازواج مطہرات تھی جنہیں ایک چولہے پہ جمع کیاجاسکتا تھاکیونکہ ان سب کا شوہر ایک ہی تھا پھر بھی سب کا رہن سہن ،اکل وشرب اور سازوسامان الگ الگ تھا۔
 (5) اگر اسلام میں جوائنٹ فیملی کا تصور ہوتا تو گھریلو اعتبار سے سب کے الگ الگ حقوق کا بیان موجود ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں اسلام میں ساس ،سسر،بہو،نند،دیور، بھابھی ، جیٹھ وغیرہ کے حقوق کاالگ سے  ذکر نہیں ہے۔
(6) اسلام میں شادی کے بعد سے عورت کی کفالت کا ذمہ دار اس کا شوہرہوتا ہے ۔ اس لئے شوہر کے ذمہ ہے بیوی کی رہائش، خوراک اور پوشاک کا بندوبست کرے۔

جوائنٹ فیملی کے کچھ فوائد بھی ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس سسٹم کی پرزور وکالت کی ہے مگر اس کے نقصانات فوائد پہ غالب ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا مشترکہ خاندان کے جو نقصانات ہیں ان سے جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتے بھی بچاجاسکتا ہے مگر میرا کہنا ہے کہ جوائنٹ فیملی کے ساتھ کماحقہ اس کے نقصانات سے تو بچنا دشوارکن ہے تاہم منفرد رہ کر سارے لوگوں کے حقوق کی بحالی کماحقہ ممکن ہے گر آد می پابند شرع ہو۔
عرب ممالک میں نئی رہائش کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں پایاجاتا ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نئے مکان کے بغیر شادی نہیں ہوتی مگر پرانے مکان میں ہی سہی جوائنٹ فیملی سسٹم نہ ہو۔ عرب ممالک کے انفرادی نظام سے جہاں ان کے یہاں بھائی بہنوں میں تاحیات الفت ومحبت قائم رہتی ہےوہیں والدین کی نگہداشت کا بھی اعلی نمونہ دیکھنے کو ملتاہےجبکہ ہمارے سماج میں اس کے برعکس ماحول ہے ۔
آخر میں کہنا چاہتاہوں کہ میں واجبی طورپہ الگ الگ رہنے کی بات نہیں کررہاہوں ۔جہاں  اسلامی اقداروروایات کو بروئے کار لاتے ہوئے مشترکہ نظام چل سکتا ہے تو مجھے ایسے نظام اور سسٹم پہ اعتراض نہیں ہے مگر جن خاندان میں ناچاقی کی انتہاہوگئی ہو اور بھائی بہنوں سے الگ رہنے والوں کوبڑا مجرم گردانا جاتاہو، حالات کے تئیں الگ ہونے والے کو پنچایتی لوگ زبردستی پھر سے ایک ساتھ رہنے کی قرارداد پاس کرتے ہوں، اس کی خلاف ورزی کرنے والے کا سوشل بائیکاٹ کیاجاتاہومیں اس سسٹم کے سخت خلاف ہوں۔


اللہ تعالی ہمیں کسی کے حق میں ادنی سی  پامالی کرنے سے بھی بچائے ۔ آمین  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔